کبھی یاد کر وہ بے رخی
تیری ذات کا جو اساس ہے
کبھی جان لے اس ذات کو
وہ جو ذات تیرے بہت پاس ہے
کبھی یوں بھی کر کہ تو مانگ لے
وہ جو شہ رگوں سے بھی پاس ہے
کبھی بات کر بھی تُو اس طرح
کہ وہ رشتہ تو کچھ خاص ہے
کبھی سوچ بھی تو اس بات پر
کیوں روح تیری یوں اداس ہے
کیوں کہ رابطے ہیں اس سے ذرا ذرا
وہ جو دھڑکنوں کی اساس ہے
اس سے دوریوں میں ہیں تلخیاں
اس کی قربتوں میں مٹھاس ہے
میرے لفظوں میں ہے بہت کمی
میری محبتوں میں اک پیاس ہے
میں لکھوں یہ سب کچھ تو کسطرح
میرا قلم بھی تو بہت حساس ہے
ان عبادتوں سے ذرا پرے
میری بندگی میں اخلاص ہے....
وہ جو شہ رگوں سے بھی پاس ہے