وہ جَب آنسو بہاۓ گا مَیں اُس کو یاد آؤں گا
یا پِھر جَب مُسکراۓ گا مَیں اُس کو یاد آؤں گا
وَفائیں میری اُس کو ہَر قدم پر یاد آنی ہیں
نہ مُجھسا کوئ پاۓ گا مَیں اُس کو یاد آؤں گا
زمانہ تو فریبی ہے زمانے کے فریبوں سے
وہ جَب بھی چوٹ کھاۓ گا مَیں اُس کو یاد آؤں گا
بِنا مطلب کے تو دُنیا میں کوئ بھی نہیں ملتا
اُسے جَب خیال آۓ گا مَیں اُس کو یاد آؤں گا
مُجھے اِتنا یقیں ہے کہ وہ جتنی بھی کرے کوشش
نہ مُجھ کو بُھول پاۓ گا مَیں اُس کو یاد آؤں گا
کسی کو مُجھ سے بَڑھ کر چاہتا ہو گا مگر اُس کو
وہ جَب اَپنا بَناۓ گا مَیں اُس کو یاد آؤں گا
مَیں ہَنستا کھیلتا اُس کا کَبھی بَچپَن جو تھا باقرؔ
وہ جَب جَب مُسکراۓ گا مَیں اُس کو یاد آؤں گا