وہ دلبر میری جان ہے ایسا بچھڑا کہ پھر ملا نہیں
دن بدل گئے سالوں میں لگا کچھ بھی تو بدلا نہیں
شام تنہائی ہے اور کچھ دھندلی یادیں ہیں ساتھ
بس یوں ہی دن کٹتے ہیں مجھے کچھ بھی تو بھولا نہیں
جینے کا بھی مزہ تھا جب ہوتا تھا وہ پاس پاس
زندگی کے رنگ بھی بے رنگ ہیں اب کچھ بھی تو رہا نہیں
مزاج ہی کچھ ایسا ہے ک خفا خفا میں رہتا ہوں
ہنسنا تو دور ہے میں کھل کے کبھی رویا نہیں
ایک امید ہے جو جینے کی آس دلا تی ہے تنویر!
ایک بار وہ مجھے مل جائے پھر رب سے کوئی گلہ نہیں