لڑی وہ جنگ کہ جس کی کوئی تیاری نہ تھی
تھے حوصلے تو بلند ہم میں ہوشیاری نہ تھی
عدو کے پاس تھی طاقت بھی اور حکمت بھی
جدل کے وقت کچھ اپنی ضرب بھی کاری نہ تھی
سالار عیش میں ڈوبا تھا ہم بھی کیا کرتے
وہ جنگ ہار گئے جو کہ ہم نے ہاری نہ تھی
کیا ہے قتل تو کیسے وہ معاف ہو جائے
اسے دماغ کی لاحق کوئی بیماری نہ تھی
اسی کی جیت میں ہم دوستی نبھاتے رہے
جو جنگ ہم میں بظاہر کبھی بھی جاری نہ تھی
تمھیں نہ درد کی شدت کا کر سکے قائل
لگے تھے زخم مگر خوں کی سرخ دھاری نہ تھی
کوئی امید وفا تم سے اور کیا کرتے
تمھیں تو اپنے عہد کی بھی پاسداری نہ تھی
جواں ہوئے تو شجر سایہ تک نہیں دیتے
ہمارے خون جگر سے کیا آبیاری نہ تھی ؟
کسی کی یاد نے اک پل ہمیں نہ سونے دیا
تھی نیند غیر بہت رات بھر ہماری نہ تھی
مزاج آپ کا برہم تھا پیار کیا کرتے
اگاتے پھول بھی کس میں کوئی کیاری نہ تھی
ہم اپنے فن کو جہاں میں نمایاں کر نہ سکے
ہمیں تو فکر جہاں ہی سے رستگاری نہ تھی
کیوں بجھ گئے ہیں تمھاری نظر میں سارے چراغ
کبھی بھی تم پہ تو جاں ایسی یاس طاری نہ تھی
بڑی تاخیر سے پہنچے تھے آپ سے ملنے
بتائیں کیا کہ میسر کوئی سواری نہ تھی
یہ اس کی یاد ہے یا اور کشمکش کوئی
اے میرے دل کبھی ایسی تو بے قراری نہ تھی
کبھی بھی تم نے مرے عیب مجھ پہ نہ کھولے
یہ دشمنی تھی مرے دوست کوئی یاری نہ تھی
اے کاش مجھ پہ وفائیں تمام کر دیتے
وفا تمھاری مرے واسطے تو ساری نہ تھی
یونہی زباں سے ادا ہو گئی تھی بات گراں
قسم ہے دوست کہ نیت بری ہماری نہ تھی
حسین سوچوں سے اس کی ہمیں محبت تھی
وہ دیکھنے میں اگرچہ بہت بھی پیاری نہ تھی