وہ رخصت کی گھڑی وہ دیدۂ نم یاد آتے ہیں
نہ جانے آج کیوں بھولے ہوئے غم یاد آتے ہیں
یہ چشم دوست کی سازش نہیں تو اور پھر کیا ہے
کہ میرے مندمل زخموں کے مرہم یاد آتے ہیں
ہوا ہے جب سے دل صید ستم ہائے غم دوراں
وہ یاد آتے تو ہیں لیکن بہت کم یاد آتے ہیں
یہاں ہم غم غلط کرنے کو آئے تھے مگر ساقی
قیامت ہے کہ میخانے میں بھی غم یاد آتے ہیں
کوئی جب چھیڑتا ہے قصۂ دار و رسن قیصرؔ
تو دیوانوں کو ان کی زلف کے خم یاد آتا ہے