وہ روشنی کی اَبھرتی لکیر بیدار نہیں ہے
کئی دِنوں سے فراز تنویر بیدار نہیں ہے
یوں تو سارے ہی احساس بیدار ہیں لیکن
بیدار نہیں تو بس ضمیر بیدار نہیں ہے
لفظوں کے جابجا کئی انبار سجے ہیں مگر
سارے لایعنی ہیں متنِ تحریر بیدار نہیں ہے
مظلوم بار بار ہِلاتے رہے ہیں گھنٹیاں
لیکن انصاف کی زنجیر بیدار نہیں ہے
عظمٰی یہ راہی کب سے اکیلا سفر میں ہے
ہمراہ کوئی بھی راہگیر بیدار نہیں ہے