کیا اب بھی تیری سادگی مشہور ہے
مجھے یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ ہو
کیا اب بھی سجتے ہیں جوڑے میں گلابی پھول
مجھے یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ ہو
وہ تیرا بار بار روٹھ جانا اور خود مان جانا
مجھے یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ ہو
وہ کاغذ کی کشتیاں وہ بارش کا پانی
وہ میرا سمجھانا وہ تیری نادانی
مجھے یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ ہو
وہ کسی کا آنا اور چھپ کے گھبرانا
وہ باندھ کے پٹیاں وہ جھوٹا زخم دیکھانا
مجھے یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ ہو
وہ ٹھنڈی ہوا میں میرے پہنچے چھپ جانا
کبھی مان جانا کبھی خوب مجھ کو ستانا
مجھے یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ ہو
وہ بارش میں تو آتی جب مجھ سے ملنے
وہ تیرا گھبرانا اور ساتھ لپٹ جانا
مجھے یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ ہو