قرض خواہ جب میرے پیچھے پڑے ہوتے ہیں
وہ دن میرے لیے بڑے کڑے ہوتے ہیں
اپنا نام کوئی اتنا بڑا نہیں ہے جاناں
مگر ہمارے سبھی کام بڑے ہوتے ہیں
ہم جس بھی محفل میں چلے جائیں
وہاں دو چار ہم سے سڑے ہوتے ہیں
کسی کم ظرف کو مل جائے کوئی نعمت
ان کے مزاج ساتویں آسماں پہ چڑھے ہوتے ہیں
وہ کسی کے فریب میں نہیں آتے کبھی
جو اچھے استادوں کے پڑھے ہوتے ہیں
جب بھی آتا ہے کسی محفل میں اصغر
سامعیں ہاتھ میں پھول لیے کھڑے ہوتے ہیں