وہ گمشدہ سا باب ہوں میں کائنات کو
ملتا نہیں سراغ جسے اپنی ذات کا
ہے کربلائے زیست میں تزئینِ بابِ حسن
الجھا سا مسئلہ ہے حیات و ممات کا
بحرِ جنون ہوں کبھی دشتِ سکوت ہوں
جو کچھ بھی ہوں پیام ہوں میں التفات کا
کھو کر کسی کی ذات میں ہوتاہوں جب نفی
پاتا ہوں پھر سراغ میں اپنے ثبات کا
تشکیل دے رہا ہوں نئے دور کو* مرادؔ
ہر باب کھولنا ہے مجھے کائنات کا