جو لوگ زندگی میں آئے اعتبار کے
وہ ہم سفر ہوئے وقت کی رفتار کے
میں ہمیشہ وقت سے پیچھے رہا اے ہمسفر
قافلے کو چھوڑ کے سنگ ہو لیا غبار کے
اب تو تنہائی کا عالم چار سو پھیلا رہے
میں ہو چلا خزاں رسیدہ ہجر میں بہار کے
اب آئینے کو دیکھ کر یہ خیال آنے لگا ہے
دن گزر چکے ہیں اب میرے سنگھار کے
وہ آج بھی مجھے بہت یاد آتا ہے عظمیٰ
جو آیا اور چلا گیا مجھ کو سنوار کے