لفظ میٹھے تھے مگر گرمیء جذبات نہ تھی
سارے قصے میں کہیں پیار بھری بات نہ تھی
ان حسیں شعروں میں اک رنگ تغزل تھا مگر
بس کمی تھی تو یہی شوخیء نغمات نہ تھی
نرم ہونٹوں کا ملا لمس مرے تحفے کو
ہائے ہاتھوں کے مقدر میں وہ سوغات نہ تھی
اس نے جس رات کیے پیار بھرے عہد و پیماں
ویسی تو زیست میں رنگین کوئی رات نہ تھی
اجنبی بن کے ملے کچھ نہ کہا کچھ نہ سنا
جیسے ہم دونوں میں پہلے سی ملاقات نہ تھی
آپ لے آئے فرشتوں کے مقابل مجھ کو
روز اول ہی سے کیا ان کو مری مات نہ تھی
چھوڑ کر اس کو جو بیٹے نے بسا لی دنیا
دوری کیا ماں کے لیے مرگ مفاجات نہ تھی
مفلسوں کے لیے رنج کوئی نئی بات نہیں
مفلسی پہلے بھی کیا باعث صدمات نہ تھی
مال و دولت نہ ہی عہدے کی تھی حسرت زاہد
اور پھر مجھ کو مقدم بھی مری ذات نہ تھی