ٰعشق امر ہے
Poet: Muhammad Shariq By: Muhammad Shariq, Karachiکہا جاتا ہے کہ عشق امر ہے
محبت بیاں کی حدوں سے بالاتر ہے
کہتے ہیں محبت دلوں کا پیمان ہے
آنکھوں کی راحت، دل کا وجدان ہے
محبت محیط عالم بے نہایت پر
ہر روایت پر اور ہر درایت پر
محبت نہاں ہر انسان کے دل میں
محبت عیاں نور مہ کامل میں
محبت پوشیدہ بہار کی آمد میں
محبت خوابیدہ کلیوں کی نکہت میں
محبت کی نمود ہر شاخ گلاب میں
محبت کی قیود بے حد و حساب میں
محبت وادیوں میں سبزے کا نکھار
محبت گلستاں میں بلبلوں کی پکار
محبت کے جلوے زمیں سے آسماں تک
محبت ہویدا مکاں سے لا مکاں تک
محبت عالم کی روشنی، محبت عالم کا نور
محبت درماندگی میں امیدوں کا ظہور
محبت جلوہ گر چاند کی ٹھنڈی کرنوں میں
محبت لہلہاتے کھیتوں، گنگناتے جھرنوں میں
محبت پنہاں جذبوں کی حرارت میں
محبت نمایاں افعال کی شدت میں
محبت غنا میں، محبت ساز میں
محبت دل کی دھڑکنوں کی آواز میں
محبت وقت سفر آنکھوں کا ڈبڈباجانا
محبت ملن میں نینوں کا بھر آنا
محبت شمع کے گرد رقص پروانوں کا
محبت صحرا میں پابجولاں پھرنا دیوانوں کا
محبت خوابوں کا سفر ایقان تک
محبت پیہم جستجو زیست کے عرفان تک
محبت کسی کے لئے فنا ہوجانا
محبت خود صحرا بننا، خود دریا ہوجانا
محبت صبح دم نسیم بہار کا گنگنانا
محبت نوخیز کلیوں پہ تتلیوں کا منڈلانا
محبت سایہ فگن شارق کائنات پر
ہر شے پر، ہر نفس پر، ہر ذات پر
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






