ٹوٹ کر بکھرے ہیں جب بھی آئنے
میرے لاکھوں روپ آئے سامنے
میں زمیں پر سے زمیں میں جا گرا
آسماں آیا تڑپ کر تھامنے
کھو گیا ہے میرے اندر ہی کہیں
وقت آیا تھا سمندر ماپنے
دل کے چرخے پر غموں کی راگنی
پھر لگی یادوں کے تاگے کاتنے
دل نے ساقی کی " تسلّی" مان لی
آگ کو جا کر بجھایا آگ نے
زرد شاموں میں دسمبر کی ہوا
چل یڑی ٹھنڈے بدن کو داغنے
اسکی یادوں کے شبینہ جشن پر
آ گئے آنسو لپک کر ناچنے
شام ہوتے ہی امـؔر مجھ پر کھلا
روشنی آئی تھی ظلمت بانٹنے