ٹھہرے جو اُس کے سامنے آئینہ نہیں ملتا
اُس چہرے کے جیسا کوئی چہرہ نہیں ملتا
اِک عمر ہو گئی گردِ سفر بنے ہوئے
منزل نہیں ملتی کوئی رستہ نہیں ملتا
کرنی ہیں مجھے پوری وہ سب ادھوری باتیں
پر کیا کروں وہ کبھی تنہا نہیں ملتا
خود کو بھی کسی روز ہم ہو جائیں میسر
یہ سوچتے ہیں پر کوئی لمحہ نہیں ملتا
وہ تیرا نہ ہوا تو یہ قسمت کی بات ہے
ورنہ بھلے بھلوں کو کیا کیا نہں ملتا
یہ جانتا ہوں میں بھی یہ مانتا ہو ں میں بھی
پر کیا کروں سُہیل حوصلہ نہیں ملتا
کیا ظلم خود پہ اب اُسے ہم بھول ہی جائین
دل کے کسی کونے میں یہ فیصلہ نہیں ملتا
یوں تو اپنی جگہ پر ہیں سب ہی انمول
پر ماں کے جیسا کوئی رشتہ نہیں ملتا
خود اپنی تلاش میں سُہیل اور مجھے
خود اپنے آپ کا بھی پتا نہیں ملتا