پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے
زمیں پہ بیٹھ کے کیا آسمان دیکھتا ہے
ملا ہے حسن تو اس حسن کی حفاظت کر
سنبھل کے چل تجھے سارا جہان دیکھتا ہے
کنیز ہو کوئی یا کوئی شاہزادی ہو
جو عشق کرتا ہے کب خاندان دیکھتا ہے
گھٹائیں اٹھتی ہیں برسات ہونے لگتی ہے
جب آنکھ بھر کے فلک کو کسان دیکھتا ہے
یہی وہ شہر جو میرے لبوں سے بولتا تھا
یہی وہ شہر جو میری زبان دیکھتا ہے
میں جب مکان کے باہر قدم نکالتا ہوں
عجب نگاہ سے مجھ کو مکان دیکھتا ہے