پرہجوم دنیا میں گوشہ تنہائی بھی نعمت نایاب ہے
جیسے کوئی ریگ صحرا سیراب زیر آب ہے
اک آزاد پنچھی کو قید و بند کی تلخی سے
کیوں نہیں بچاتے ہو کیوں نہیں بتاتے ہو
یہ در و دیواریں جو سرخ سبز ہیروں سے
ریشمیں پردوں سے جگمگا رہے ہیں جو
لہرا رہے ہیں جو اپنی زیب و زینت سے
دل لبھا رہے ہیں جو یہ تو اک تماشہ ہے
اور اس تماشے کا اختتام ہونا ہے
ان حسیں نظاروں کا اختتام ہونا ہے
یہ ہجوم و رونقیں یہ محفلیں یہ مجلسیں
یہ واہ واہ کے سلسلے اور آہ و زاریاں
جو پاس ہیں ان سے بھی اک دن دور چلے جانا ہے
جو دور ہیں ان کو بھی نزدیک چلے آنا ہے
یہ قربتیں یہ فاصلے یہ آنیاں یہ جانیاں
اوراق زیست پر لکھی کتاب بے حساب ہے
بے مول ہے انمول ہے یہ نادر و نایاب ہے
پرہجوم دنیا میں گوشہ تنہائی بھی نعمت نایاب ہے
جیسے کوئی ریگ صحرا سیراب زیر آب ہے