آنکھوں میں نیند جاگتی ھے
اور پلکؤں پہ خواب ہیں
نظریں ہیں سہمی سہمی سی
اور راتیں عذاب ہیں
پھر پیاس یوں بڑھی کہ
بوندوں کو چھو لیا
یوں بارش کے موسموں میں
ساری شامیں بیتاب ہیں
پھر کھوجنے کو نکلے
اس اجڑے نگر کو ھم
تاریکیوں کی راھوں میں
ساری خوشیاں سراب ہیں