اسلوب میں ہے سادگی رنگیں ادا نہیں
میں حقیقتوں کا شاعر شعلہ نوا نہیں
کرتا ہوں اس سماج کے چہرے کو بے نقاب
صرف حسن و عشق کا ہی بیاں مدعا نہیں
اشہر ہیں تیرے شہر میں ناواقف ہنر
تجھ کو بھی ہے خبر یہ کوئی افترا نہیں
بہتا ہے آدمی کا لہو رات دن یہاں
وہ کچھ بھی ہو رہا ہے کبھی جو سنا نہیں
سرگرمیوں سے بیٹیوں کی باپ بے خبر
بھائی بہن کا آج محافظ رہا نہیں
سارا سماج گلتی ہوئی لاش بن چکا
اب اس کے زندہ ہونے کی کوئی رجا نہیں
اے دوست یہ نظام ، یہ جمہوریت کا دور
ان ادھ کھلے دریچوں میں تازہ ہوا نہیں
مفلس نظام نو میں بھی بے گھر ہیں آج تک
اور حکمراں کہ جن کے ایوانوں میں کیا نہیں
پلکیں اٹھا کے نور کی کرنیں بکھیر دو
مدت ہوئی ہے شب کو سویرا ملا نہیں