پڑا تھا لکھنا مجھے خود ہی ’’مرثیہ میرا‘‘
کہ میرے بعد بھلا اور کون تھا میرا
عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی
بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا میرا
یہی کہ سانس بھی لینے نہ دے گی اب مجھ کو
زیادہ اور بگاڑے گی کیا ہوا میرا
میں اپنی روح لیے دربدر بھٹکتا رہا
بدن سے دور مکمل وجود تھا میرا
مرے سفر کو تو صدیاں گزر گئیں لیکن
فلک پہ اب بھی ہے قائم نشانِ پا میرا
بس ایک بار ملا تھا مجھے کہیں آزرؔ
بنا گیا وہ مجھی کو مجسمہ میرا