پھر اس لمس کے سائے میں لے جو خیال
بکھر جاتا ہوں اکثر پگھل جاتا ہوں اکثر
ماہتاب پھر دکھا پہلے سا وہ مجنون اجالا
گر جاتا ہوں اکثر میں کھو جاتا ہوں اکثر
یہ بھٹکا ہوا دامن اس سمت زلف پریشان
جل جاتا ہوں اکثر میں مٹ جاتا ہوں اکثر
وہ چشم عنایت بڑی بے کیف ہوئی ہے
گھبراتا ہوں اکثر میں بجھ جاتا ہوں اکثر
نگاہ وہ قائم ہے پر وقت چاہے بدلا ہے
سنبھل جاتا ہوں اکثر بدل جاتا ہوں اکثر