جِس کو پالا تھا بڑے نازوں سے اُسکے باپ نے
خُوب بدلہ دے گئی وہ اُس کے سب اِحسانوں کا
ماں کی ممتا بھائیوں کی چھاؤں کو وہ بُھول کر
ہوگئی آزاد دے کر بار کتنے طَعنوں کا
کل نِکل کر پھر اک بچی اپنے گھر سے چَل پڑی
پھر جنازہ دُھوم سے نِکلا ہے کچھ ارمانوں کا
کون عشرت وارثی ماں باپ کو رُسوا کرے
یہ طریقہ لگتا ہے اغیار کا شیطانوں کا