پھر یوں ہوا ایک بار وہ ایسا روٹھا مجھ سے
پھر یوں ہوا اَس بار میں منا نہ پایا اَسکو
پریشان میں تھا یہاں اداس وہ تھا وہاں
نہ جانے کیوں میں رو پڑا پر بتا نہ پایا اَسکو
پھر ہوا ایسے کہ فرشتہ اجل آج پَہنچا
تھا میں انتظار میں اس کیے پتہ تھا اسکو
پھر کچھ ہوا یہاں سے ہوۓ دنیا کے غم ختم
اور نہ پھر رویا میں نہ ہوئی کوئی اور آنکھ نم
یہ اسکا یہ اَسکا تو تھا ایک بہانہ کچھ بَتانا تھا اَسکو
پھر نہ بتا پایا میں اور نہ ہی کچھ آیا خیال اَسکو