پھنساتا ہے جنگل ؟ بچاتا ہے جنگل ؟

Poet: توقیر اعجاز دیپک By: مسکان علی, D i Khan

پھنساتا ہے جنگل ؟ بچاتا ہے جنگل ؟
ذرا دیکھ ! کیا گل کھلاتا ہے جنگل ؟

جو سب کچھ ڈبو دیتی ہے ظلمتوں میں
گھٹا ایک ایسی اڑاتا ہے جنگل

یہ مانا کہ سب ہی اِدھر بے زباں ہیں
مگر داستانیں سناتا ہے جنگل

ملے ناتواں جو ، اسے نوچ کھاؤ
یہی قاعدہ بس سکھاتا ہے جنگل

بھلے ہی کھلے عام ہو خون ریزی
مگر سب شواہد چھپاتا ہے جنگل

جو دم گھونٹ دیتی ہے سب باسیوں کا
فضا ایک ایسی بناتا ہے جنگل

درندوں کی پھیلی ہے ایسے حکومت
کہ اب بستیوں کو بھی کھاتا ہے جنگل

چلو آو ! سیکھیں اشاروں کی بھاشا
کہ بس ، چپ ہی رہنا سکھاتا ہے جنگل
 

Rate it:
Views: 319
16 Jul, 2024
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL