کس سے اپنے درد کا اظہار کروں
کوئی تو ہو جسے رازدار کروں
اب تو پھول بھی شناسا نہ رہے
آخر کب تک کانٹوں پہ اعتبار کروں
میری داستان تو ہے ایک نوحہ کناں
سنا سنا کر کب تک بیزار کروں
بھر دے لب تک پیمانے کو ساقی
مدہوشی میں استاد زمانہ کو برخوردار کروں
جہالت جہاں سے میں بےعلم ہی اچھا
الف اقرا ہی کو اپنا علم سالار کروں
آب کوثر کی ایک بوند کا طلبگار ہوں
تیرے حکم کو کیسے و کیونکر انکار کروں
مجھے درد کی دعا دے دوا نہ دے
تہی دامن خزاں کو بھی بہار کروں