کیوں
جلتے ہوئے صحرا سے گزری ہوں
کیوں کوئی سہارا نہیں دیتا
مدت سے
خاموش خاموش سی ہوں
اس دریا میں
وہ پتھر کیوں نہیں پھینکتا
کبھی دریچے
میں کھڑی ہوتی ہوں
تو وہ چہرہ ہی کیوں نہیں
دیکھائی دیتا
اس کی راہ پہ چلتی ہوں
تو وہ آواز کیوں نہیں دیتا
اپنی سانسوں میں
خوشبو بسا کر
اس کے آنگن میں اترتی ہوں
تو وہ مجھے
پھول کیوں نہیں دیتا