راہ میں آپ کے آثار نظر آتے ہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
کر گئے کوچ یہاں سے جو پرندے سارے
کسی آفت کے اب آثار نظر آتے ہیں
جاگتی آنکھوں سے سونے کے ہوئے ہیں عادی
ہم سے اب خاب بھی بیزار نظر آتے ہیں
ایک چہرے پہ کئی چہرے سجا لیتے ہیں جو
ہم کو چہرے سے ہی مکار نظر آتے ہیں
چند یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں پاس مرے
آپ دولت کے طلبگار نظر آتے ہیں