پہلے آنکھوں میں نمی بعد میں آنسو آئے
جب بھی بےساختہ یادوں میں کبھی تو آئے
یوں پذیرائی ہوئی دل میں تیری یادوں کی
جیسے ویرانے میں بھٹکے ہوئے آہو آئے
زرد موسم کی ہوا راس نہیں آتی ہے
دوپہر بند دریچہ جو کھلے لو آئے
تیرا ہی غم ہو جو قائم ہے ابھی تک ورنہ
زندگی میں کئی افسوس کے پہلو آئے
گھر سے مفرور حسینہ کے مقدر میں میاں
پہلے زنجیر تھی اب پاؤں میں گھنگرو آئے
کوئی حیران کھڑا تھا کسی دروازے پر
یا کہیں دور سے ہم دیکھنے جادو آئے
ایک بچہ جو ہمکتا تھا کبھی مجھ میں امان
کھو گیا جانے کہاں ڈھونڈ کے ہر سو آئے