پہلے دِل کا محلّہ ڈھانا ہے
پھر لہو رو کے مسکرانا ہے
اب تری یاد بس ہمارے ہاں
دن گنوانے کا اک بہانہ ہے
نہیں اب تک یہ فیصلہ ہو سکا
پہلے کس نے کسے بُھلانا ہے
یہ محبت بھی ہے عجب ناٹک
خوں پیئے ایک جگ ہنسانا ہے
ہم سے بڑھ کر وہ کج ادا ہی سہی
انتہاء تک بھی آزمانا ہے
تیری بے ماجرا خموشی سے
ایک پاگل نے غُل مچانا ہے
تیرے در سے رہی امیدِ کرم
جبر کرنا ہے زہر کھانا ہے
ہیں وہ کرتوت کے مرا لاشہ
رند نے بھی نہیں اُٹھانا ہے
کیوں بلا کو تری غرض اُس سے
جس نے کُڑ کُڑ کے مر ہی جانا ہے
سچ بتاؤں کے عشق میرے تئیں
کچھ نہیں، زندگی گنوانا ہے