پیار تو تھا مگر بات زباں پہ نہ آئی کبھی
دل رہا خافء ان میں وفا نظر نہ آئی کبھی
کوئ اس نگاہ کے حجابی انداز کو تو دیکھے شباب
زباں سے کچھ نہ کہا اور اپنی بات کہ بھی گئے
کھلی آنکھوں میں انتظار کا موسم رہتا ہے
جو بند ہوتی ہیں آنکھیں تو سپنے سجنے لگتے ہیں
وہ روح میں میری شامل تھا دل میں رہتا تھا
ایک شخص جو مجھ ہی سے دور دور رہتا تھا
چند قدم چل کر رک گیا وہ راہ الفت میں شباب
بس اتنے ہی سفر کے لےء اس نے مانگا تھا مجھے