پیار کا انداز ہے الفاظ ہیں نشتر
کیسے کیسے روپ کا بنا ہے یہ بشر
چھٹ چکے ہیں رات کے دھندلکے
اک نئے انداز سے طلوع ہوئی سحر
نیم کے پتے اداس تھے بچھڑا تھا شاید کوئی
کتنی عجیب عجیب تھی وہ دوپہر
پاس تھا تو کوئی پرواہ نہ تھی
دل دھڑکا ایک دم جب گیا کوئی بچھڑ
شام کے اندھیروں میں وہ ڈوب گیا
نکلا تھا جو ڈھونڈنے نوید سحر