Add Poetry

پیام بہار

Poet: ایم آر چشتی By: M R Chishti, Muzaffarpur India

میں خاک ہند اور گنگا کا پانی لے کے آیا ہوں
بہاری ہوں ریاست کی نشانی لے کے آیا ہوں

تمہارے نام میں چاہت بھرا پیغام لایا ہوں
چھپا کے اپنی آنکھوں میں وہاں کی شام لایا ہوں

بہن کے خواب بھائی کی وفائیں لے کے آیا ہوں
میں شمس الدین یحی کی دعائیں لے کے آیا ہوں

مجھے معلوم ہے تم اب بھی اکثر یاد کرتے ہو
مجھے معلوم ہے گاؤں کا منظر یاد کرتے ہو

بہت بدلا ہے کچھ سالوں میں ہم وطنو بہار اپنا
وہاں کے نوجواں اب کر رہے ہیں کاروبار اپنا

ہر اک کچی سڑک بدلی ہوئی ہے شاہراہوں میں
کہ پھر سے سج رہے ہیں خواب لوگوں کی نگاہوں میں

جہاں بازار بھی جاتے تھے ہم سب روز کشتی سے
وہاں اب پل ہے تانگے دوڑتے رہتے ہیں مستی سے

جہاں جلتی تھی شمع اب وہاں پہ بلب روشن ہے
منور ہر گلی ہر راستہ ہر گھر کا آنگن ہے

ترقی یافتہ اس دور میں بھی گاؤں کے بچے
بہت ہی شوق سے سنتے ہیں نانی جان کے قصے

جہاں کا ایک اک منظر نگاہوں میں جھلکتا ہے
سنو اس آم کی گاچھی میں اب بازار لگتا ہے


مظفر پور کی لیچی تو حاجی پور کے کیلے
پتہ ہے آم دربھنگہ کہ تم اب تک نہیں بھولے

نہیں بھولے ہو تم وہ گاؤں کی چوپال کی رونق
نہیں بھولے ہو تم اب تک وہ ماہ وسال کی رونق

تمہارے ذکر سے ہر کوئی دل کو شاد کرتا ہے
سنو اب بھی عظیم آباد تم کو یاد کرتا ہے

تمہارا منتظر اب بھی وہاں کا ہر پرند ہ ہے
جہاں کی پینٹنگ میں میتھلی تہذیب زندہ ہے

گزر جائے ہوا جس وقت لگ کے تیرے دامن سے
سمجھ لینا پکارا ہے کسی نے تجھ کو سارن سے

جو ہم سب کے لیے برسوں سے ہے انمول بھاؤ کا
تمہیں تو یاد ہوگا دوستو کھاجا سلاؤ کا

چراغ عشق ان آنکھوں میں جس دم جھلملاتا ہے
مگدھ مونگیر پورنیہ و کوسی یاد آتا ہے

تمہاری آنکھیں نم ہو جائیں گی باتیں مری سن کر
ترستی ہے انہیں کاندھے کو بھاگلپور کی چادر

کبھی جب چانرنی راتوں میں بچے شور کرتے ہیں
تمہیں موجود نہ پاکر کئ دل آہ بھرتے ہیں

تمہیں مندر بھی مسجد بھی شوالہ یاد کرتا ہے
گلی کے موڑ کا وہ چائے والا یاد کرتا ہے

مہزب باپ ماں سمجھاتے ہیں ان پر بگڑتے ہیں
مگر کیچڑ میں بچے آج بھی مچھلی پکڑتے ہیں

نکلنے کو گلی کے موڑ پر اکثر نکلتا ہے
مگر وہ چاند تو اب بھی تمہاری راہ تکتا ہے.

وہاں باغوں میں اب بھی کوکتی ہے ہر گھڑی کویل
کسانوں کے لئے ہے اب بھی ہے سب کچھ ان کے بیل اور ہل

محرم خوب گزرا چاند اور رنجن چچا کے ساتھ
منائ ہے دیا شنکر نے ہولی مصطفٰی کے ساتھ

تمہارا ذکر کرتے ہیں کنہیا اور لالا بھی
بہت ہی یاد کرتا ہے وہ مرشد پان والا بھی

قمر مجنوں بنا ہے اب جدائی ہونے والی ہے
میاں بدرل کی بیٹی کی سگائ ہونے والی ہے

نہ جانے کیا کہا چپکے سے یہ عابد کے چیلے نے
چچا جمن کی عینک توڑ دی طاہر کے بیٹے نے

بٹیسر چا کو پھر اک زخم گہرا دے گیا کوئی
کھجوری باغ سے تاڑی کا مٹکا لے گیا کوئی

وہ بوڑھا برف والا آج بھی گلیوں میں آتا ہے
چولہائ خوانچے والا اب دکاں اپنی سجاتا ہے

نقی چاچا کے دونوں لاڈلے دلی میں رہتے ہیں
مگر کالو کے بیٹے آج بھی ویسے کے ویسے ہیں

مجاہد ماسٹر صاحب جہاں سے ہو گئے رخصت
بہت ناساز رہتی ہے ضمیرن بائ کی طبیعت

وہ گھر بھوسے کا اب بھی ہے جہاں تم چھپ کے آئے تھے
وہاں پکنے کو تم نے ایک دن کیلے چھپائے تھے

نکلتی آج بھی ہے چارپائی گھر کے آنگن میں
نظر آتی ہے وہ کاغذ کی کشتی اب بھی ساون میں

بدلتا ہے یہ موسم فصل جب گیہوں کی کٹتی ہے
کبڈی کھیلنے بچوں کی اک ٹولی نکلتی ہے

جلانے پہ تلا تھا دوستو گرمی کا موسم بھی
قیامت ڈھا گیا اس بار تو سردی کاموسم بھی

تمہارے ابو امی آج کل چپ چپ سے رہتے ہیں
تمہارے دوست رشتہ دار تم کو یاد کرتے ہیں


تمہارا نام ہر لب پر تمہارا ذکر ہے ہر سو
تمہارے منتظر ہیں چاند تارے پھول اور خوشبو

وہ آنچل پیاری ماں کا باپ کی انگلی چھڑاتی ہے
ضرورت ہی کسی کو دوستو پردیس لاتی ہے

ضرورت کا ہمیشہ سے جڑا بندھن ہے سکوں سے
ضرورت ہی کسی کو دور کر دیتی ہے اپنوں سے

بہت مشکل ہے اپنوں کے بنا اس دل کو بہلانا
ضرورت ختم ہو جائے تو گھر اپنے چلے جانا

ایم آر چشتی

یہ نظم جشن بہار دوحہ قطر کے لئے لکھی گئی ہے. بہار بھارت کی ایک ریاست ہے. اردو ادب بہار میں شاد عظیم آبادی، جمیل مظہری کی وجہ سے اپنی پہچان رکھتا ہے.

Rate it:
Views: 306
04 Apr, 2016
Related Tags on General Poetry
Load More Tags
More General Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets