پیوست دل میں ہو گیا اک بے خبر کا تیر
اندوہ گیر ہے یہ اسی درد سر کا تیر
دل پر لگا نہیں ہے جو اہل نظر کا تیر
بے فائدہ ہے زیرک علم و ہنر کا تیر
دنیائے حسن ہونے لگی بے نقاب آج
سفاک ہے وہ، فتنہء شام و سحر کا تیر
ہلچل سی کوئے یار میں برپا اسی سے ہے
یوں رائگاں نہ سمجھو مری چشم تر کا تیر
میداں میں کام آئے نہ لاف گزاف کچھ
لگتا ہے کب ہدف پہ کسی بے بصر کا تیر ؟
یارب ! وہ نامرادی مقصود کر عطا
جس سے چبھے کچھ اور بھی درد جگر کا تیر
سوز فغان شب میں ہیں بجلی کی تابشیں
ہے برق انقلاب چراغ سحر کا تیر
مستی نثار، شوخی فدا، بے خودی پہ غش
ان کی نظر کا تیر ہے ان کی نظر کا تیر
قلب و نظر کی خیر ہو یارب ! جگر کی خیر
چلنے لگا ہے اس نگہ فتنہ گر کا تیر
ہیں نالہ و فغاں میں قیامت کی گرمیاں
عرش بریں کے پار ہے آہ جگر کا تیر
رومی! ہمارے پاس ہے مفتاح ہر مراد
زنبیل میں ہماری پڑا ہے، اثر کا تیر