چائے والے سے کیا کیا یارو
آج تم اس کو ڈھونڈ لائے ہو
آج چرچا ہے اس کا ہر جانب
آج اس کو گلے لگائے ہو
اور ہوکر کسی خیال میں گم
کل مگر اس کومحوکردوگے
بھیج دوگےانہی اندھیروں میں
دل کوزخموںسےاس کے بھردوگے
آج جن آنکھوں پہ مرتا ہے جہاں
کل وہی اشک بہاتی ہوں گی
فخر ہے آج جس ماضی پہ انھیں
کل اسے روگ بتاتی ہوں گی
چائے ہی کپ میں وہ بھرا کرتا
اس کو گمنام ہی رہنے دیتے
خواب جھوٹے بلندیوں کےدٍکھا
درد نہ یوں مگرسہنے دیتے
چائے والے سے کیا کیا یارو!