رحمت و برکتوں کو جلوء میں لیئے ہوئے
چاہت کے ساتھ آئی رعمیسہ فرید ہے
تنہائیوں کو جس نے خوشی سے بدل دیا
خوشیوں کی وہ رباعی رعمیسہ فرید ہے
بے رونقی تھی باغ ثمن میں کبھی ادھر
ان رونقوں کو لائی رعمیسہ فرید ہے
گلدستہ شمیم میں اک اور خوشنما
رب نے کلی کھلائی رعمیسہ فرید ہے
معصومیت کو حسن کے قالب میں ڈھال کر
قدرت سے جو بنائی رعمیسہ فرید ہے
باغوں میں بلبلوں نے گلابوں کو چوم کر
جس پر غزل ہے گائی رعمیسہ فرید ہے
پیچھے اشہر بھی رہتا کسی سے نہیں یہاں
اس نے نظم سنائی رعمیسہ فرید ہے