چاہت کے دیس کے نئے دستور ہوگئے
محفل سجا کے خود یہاں مستور ہوگئے
مجنوں کی مثل تیرے جنوں کا شکار تھے
چاہت میں ڈوب کر تیری منصور ہوگئے
دیوانگی میں اور تو کچھ نہ ملا مگر
اتنا ہوا کہ ہم یہاں مشہور ہوگئے
اب تو نگاہ انکی تجلی کی ہے اسیر
حسن جمال یار میں محصور ہوگئے
ہم کو محبتیں نہ کبھی راس آسکیں
اس عاشقی کے زخم سے ہم چور ہوگئے
تیری وفا میں خانہ بدوشی ملی یہاں
برباد ہو کے ہم بڑے مجبور ہوگئے
انکی خوشی کا ہم سے کوئی ربط تو ہوا
دکھ میں وہ ہم کو دیکھ کر مسرور ہوگئے
بدحال دیکھ کر ہمیں ٹھکرا دیا گیا
ہم روشنی سے اب شب دیجور ہوگئے
جب سے خزاں گئی ہے ہمیں دیکھتے نہیں
رنگ بہار آتے ہی مغرور ہوگئے
مرسوم نہ دیا ہمیں مرسوم ہی کہا
انکے کرم سے جیتے جی مخفور ہوگئے
بھر کر نگاہ چہرہ بھی دیکھا نہیں کبھی
پھر بھی نگاہ ناز کے مقہور ہوگئے
انکو گریزاں دیکھ کر روتے ہوئے اشہر
ہم انکی رہ گزر سے بہت دور ہوگئے