چشم نم پر مسکرا کر چل دیئے
آگ پانی میں لگا کر چل دیئے
ساری محفل لڑکھڑاتی رہ گئی
مست آنکھوں سے پلا کر چل دیئے
گرد منزل آج تک ہے بے قرار
اک قیامت ہی اٹھا کر چل دیئے
میری امیدوں کی دنیا ہل گئی
ناز سے دامن بچا کر چل دیئے
مختلف انداز سے دیکھا کئے
سب کی نظریں آزما کر چل دیئے
گلستاں میں آپ آئے بھی تو کیا
چند کلیوں کو ہنسا کر چل دیئے
وجد میں آ کر ہوائیں رہ گئیں
زیر لب کچھ گنگنا کر چل دیئے
وہ فضا وہ چودھویں کی چاندنی
حسن کی شبنم گرا کر چل دیئے
وہ تبسم وہ ادائیں وہ نگاہ
سب کو دیوانہ بنا کر چل دیئے
کچھ خبر ان کی بھی ہے ماہرؔ تمہیں
آپ تو غزلیں سنا کر چل دیئے