میں کبھی خود کو وقت کے ہاتھوں رسوا نہیں کرتا
جسے چلنا نہ ہو ساتھ میرے میں اسے گمراہ نہیں کرتا
آہ تو چھوڑ جائے گا مجھے تو مر جاوں گا میں
گیا وہ جب تو جانا کہ محض تھی باتیں کوئی نہیں مرتا
فنا کر لینا محبت میں اور نام وفا پر وعدوں کے دعوے
فقط اک شرط ہے محبت کی مگر پوری کوئی نہیں کرتا
دیکھا جو خواب اس نے کہ مرچکے ہیں ہم اب
زندگی تو ہے دلوں میں رہنا بھلا شاعر کب مرتا
روکے مجھے رکتا نہیں میں کبھی روکنے سے
خوف ہو بھلا جو چاہوں وہی میں کر گزرتا
دلوں کو جوڑ جوڑ کر تھک سا گیا ہوں میں
کوئی جو سمجھ لے مجھے بھی کوئی پرواہ نہیں کرتا
چل چھوڑ لکھ اپنی غزل چل اپنی راہ پھر اداس
یہاں زندہ لوگوں کو سوا درد کہ کچھ نہیں ملتا