انسانیت کا دائمی دشمن چلا گیا
جو حزن بانٹتا تھا وہ محزن چلا گیا
کوئی نہیں جو مجرم عادی کو دے سزا
سامان گھر کا لوٹ کر رہزن چلا گیا
بغداد سے وہ داد تو حاصل نہ کر سکا
سرخ سرخ کر کے وہ آنگن چل گیا
گلشن کے پھول پھول گئے ہیں خوشی سے پھول
گلچین جو آج چھوڑ کے گلشن چلا گیا
سجنی نے مار مار کے سنجوا دیا بدن
جب ہی تو سجن چھوڑ کے ساجن چلا گیا
اے دوست اس سے قبل کہ بن آتی جان پر
وہ بوریا لپیٹ کے فوراً چلا گیا
زاغ سیاہ اڑ تو گیا چھ برس کے بعد
لیکن اجاڑ کر وہ نشیمن چلا گیا
اب اہل دل گائیں گے امن و امان کی فصل
صدر شکر و خون کا سیزن چلا گیا