چلتے چلتے تھک گیا ہوں خار زار میں
میرے قدم بڑھنے لگے تیرے دیار میں
کہنے کے لئے زندگی ہر گام رواں ہے
ساکن ہے اک جگہ پر جیسے مزار ہے
بے نور سویرے ہیں شامیں اداس ہیں
ہم جی رہے ابھی تک اندھیرے غار میں
اب کون سنائے ہمارے دل کی داستاں
اپنے وجود کا تو ہر اعضاء بیمار ہے
راتوں میں جاگ جاگ کے سونا بھلا دیا
آنکھوں میں رتجگوں کا جاگا خمار ہے
عظمٰی تمام عمر یہی سوچتے گزر گئی
وہ کون ہے جو اپنے لئے بیقرار ہے