چلو چلتے ہیں ان کی بزم میں تنہائیاں لے کر
اداس آنکھوں میں پنہاں درد کی پرچھائیاں لے کر
تمہیں دنیا میں اپنی سرُخروئی کی مبارک ہو
چلے جائیں گے اپنے ساتھ وہ رسوائیاں لے کر
سجائی تم نے جب بزمِ طرب اغیار کی خاطر
چلے آۓ ہم اپنے درد کی گہرائیاں لے کر
میں اس کی کج ادائی کا کفن اوڑھے ملی اس کو
وہ جب آیا مرے گھر پیار کی شہنائیاں لے کر
نہ اپنے گھر کا کوئی راستہ تک یاد تھا اس کو
میں جس کی منتظر تھی وصل کی زیبائیاں لے کر
چھوُا سورج نے اپنے ہاتھ سے جب صبح کا چہرہ
صبح جاگی بڑے ہی ناز سے انگڑائیاں لے کر
شعورِ زندگی جن کو نہ تھا وہ راج کرتے ہیں
رہے خالی کے خالی ہم مگر دانائیاں لے کر
مری لختِ جگر تجھ بن ادھوری زیست تھی میری
تو آئی زیست میں میری نئی رعنائیاں لے کر
کیا ہے طے سفر کانٹوں بھرا عذراؔ مشقت سے
ملی ہے زندگی مجھ کو بڑی کٹھنائیاں لے کر