چلیں باتوں میں بہلائے کبھی آئے
کو ئی وعدہ ہی کر جائے کبھی آئے
مِرا شکوہ ہی سمجھے یا گذارش وہ
خدارا یوں نہ اُلجھائے کبھی آئے
وہ چاہے آنسو کی صورت ہی کچھ لمحے
مری ا ٓنکھوں میں بھر آئے کبھی آئے
گوارہ ہے ہمیں ہر فیصلہ اُس کا
وہ جوچاہےستم ڈھائے کبھی آئے
وہ بادِ نو بہار بن کر چلے دل میں
کھلا ئے پھول مُرجھائے کبھی آئے
ہمیں بھی چین کے کچھ پل ہی مل جائیں
گئے وقتوں کو دہرائے کبھی آئے
خلش دل کی رضا اب وہ مٹا ہی دے
اذیّت دے نہ تڑپائے کبھی آئے