چمن کی تو رونق اسی سے بڑھے گی
سبھی پر نظر جب بھی یکساں پڑے گی
تو تفریق سے اپنا خالی ذہن ہو
اسی سے امن کی فضا بھی بنے گی
جسے علم کی بس طلب ہی رہے گی
تو رفعت جہاں میں اسی کو ملے گی
حمایت نہ مخلوط تعلیم کی ہو
یہی بے حیائی کا باعث بنے گی
جہاں میں پیامِ امن ہی تو پھیلے
دلوں کی خلش بس اِسی سے مٹے گی
جو کردار اپنے بلند ہی رہیں گے
تو عزت ہی قدموں میں اپنے گرے گی
نہ ہو ناز اپنی عبادت پہ ہم کو
جو ہو فضل ان کا تو جنت ملے گی
زمانے کا شکوہ عبث ہی تو سمجھو
جو ہو فضل اٌن کا تو ذلت ہٹے گی
کبھی اثر کا کوئی لمحہ نہ بیتے
کہ اُس کی نظر غیب پر ہی جمے گی