چند جگنو سر مژگاں جو سجا دیتی ہیں
تیری آنکھیں مجھے لگتا ہے دعا دیتی ہیں
تیری چپ چپ سی زباں بولتی آنکھیں ہمدم
پیکر فکر کی بنیاد ہلا دیتی ہیں
وحشتیں شب کی میرے دل کے سیاہ خانے میں
کتنی شمعیں تیری یادوں کی جلا دیتی ہیں
میرے آغاز کو اندیشہء انجام نہ تھا
چاہتیں یوں بھی تو اکثر ہی رلا دیتی ہیں