چوٹ کھائے ہیں مگر آہ بھی نہیں کرتے
دل جو چاہے تو کبھی واہ بھی نہیں کرتے
میرے درویش سخاوت کے تیری کیا کہنے
ایسی فیاضیاں تو شاہ بھی نہیں کرتے
وہ بھی کیا خوب ہیں گمنامیوں کے شائق ہیں
لوگ جانیں انہیں یہ چاہ بھی نہیں کرتے
ایک انوکھا سا تعلق ہمارے درمیاں ہے
توڑتے بھی نہیں نباہ بھی نہیں کرتے
کتنی حسیں یادوں کے مینارے عظمٰی
گر بناتے نہیں تباہ بھی نہیں کرتے