نظر دیکھ کر حیران ہے
عجب سا یہ جہان ہے
ہر مخلوق کا الگ رنگ ہے
اپنی اپنی فطرت سنگ ہے
تم چوہے دیکھو غور سے
عاری ہیں یہ زور سے
مگر کیسا ناچ نچاتے ہیں
نانی کی یاد دلاتے ہیں
گھروں میں گھر بناتے ہیں
خود کو پھر چھپاتے ہیں
جو ملتا ہے کھا جاتے ہیں
یوں پیٹ کی آگ بجھاتےہیں
کھانے کے پیچھے لڑتے ہیں
مرنے سے بہت ڈرتے ہیں
جان پر بنے تو جان بچاتا ہے
چوہا چوہے کو کھا جاتا ہے
کچھ ملے تو ادھم مچاتے ہیں
موت کو پھر بھول جاتے ہیں
غور کرو یہ کیسے ہیں
کیا نہیں یہ ہم جیسے ہیں
کچھ ہم میں ان میں فرق تو ہو
تفکر میں یہ زہین غرق تو ہو
فقط نفس کے پیچھے جائیں گئے
تو ہم بھی چوہے کہلائیں گئے