چھوٹی دنیا انسان پر ظلم کےخلاف بول رھی ھے
مگر اسلامی دنیا کی حالت نہیں بدل رھی ھے
یہ تصنع یہ منافقت اور یہ پردہ داری
سچ کے نقیبوں کو کچل رھی ھے
کبھی کسی وقت ھمیں آزما کے تو دیکھو
زندگی اسی انتظار میں چل رھی ھے
بہتر ھے وہ زنندگی جو کسی کے کام آ جائے
ورنہ اجل تو اسے اپنی طرف دھکیل رھی ھے
کسی کو خوشیاں دے دو اور کسی کو مسکراہٹیں
چند ساعتوں میں روح جسم سے نکل رھی ھے
اے اھل وفا اپنے جیون سے انصاف کر جاؤ
ورنہ اجل دبوچنے کے لیے پر تول رھی ھے
آج پھر بجائے خرد کے ابراھیم کا عشق چاھیے
اس لئیے کہ ھر گھر میں آتش نمرود جل رھی ھے
سکوت شام بڑے طوفاں کا پیش خیمہ ھے
اگرچہ ھوائے شوق سکون سے چل رھی ھے
اس دور میں نفسہ نفسی کا یہ عا لم ھے حسن
انا کی مستی میں دلوں سے رغبت بھول رھی ھے