چھُوا تلووں سے میں نے رستۂ دشوار کے سفر کو
تو پایا رگِ آگ ہیں لمحہ لمحہ بھی اِس نگر کے
پچھلے پہروں میں تم روتے دکھائی نہ دیئے تو کہنا
میری سوچ سے دیکھوٗ گزرے وقت سے گزر کے
باریک بینیوں سے تُو میری کبھی جا نہ پائے گا
تُو تحلیل ہے اِک اِک ذّرے میں میری نظر کے
اب تو دردِ جاں سے ہی سکون حاصل کیا جائے
مے بنائیے آنسوؤں میں خونِ رگِ نبض کو بھر کے
ضرورت ہے ناقص جیون کو قوی سہاروں کی
شانوں کو کاٹ لاؤ کسی توانا شجر کے
کھونا پانا ہی منتحب ہوا ہے ریکھاؤں سے
دو شگوفوں میں بٹے ہیں حصّے مجروح عمر کے
اِک اِک پَل میں نے نامِ زندگی کیا ہے
اور ہر پل کھویا ہے تجھے اِک اِک پَل ٹھہر کے