لحاظوں میں لپٹ وا کے لب و لہجے
چھین لیے گئے الفاظ شوقِ بیان کے
تشخیص کرتے آئے نت نئے دردوں کی
دلِ خنجر کے سہارے. بغیر سامان کے
بڑے، تسلسل کے ساتھ بے رونق ہوئے
خوشبو دار پھول چرالیے گۓ باغباں کے
مجرم ٹہرے سارے سماج نے دیکھا اسے
مکھڑا تو تھا غضب اور میٹھے زبان کے
حازق اس شخص کی خیر ہو نا ملال ہے
جینا تو سکھا گیا وہ آخر بغیر آرمان کے