چہرہ کوئی بھی آنکھ میں ٹھہرا نہ پھر کبھی
دل نے کسی بھی شخص کو چاہا نہ پھر کبھی
روٹھا ذرا سی بات پہ ، اُٹھ کر چلا گیا
ایسا گیا کہ لوٹ کے آیا نہ پھر کبھی
کچھ یوں ملا تپاک سے بس عشق ہو گیا
وہ اجنبی تھا ، کون تھا ، سوچا نہ پھر کبھی
اُس نے بطور تحفہ دیا تھا لباسِ ہجر
پہنا جو ایک بار ، اُتارا نہ پھر کبھی
دیکھے ضعیف کاندھوں پہ محنت کے جب نشاں
بچوں نے کچھ بھی باپ سے مانگا نہ پھر کبھی
دولت ملی تو چھن گئی احساس کی قبا
اُس مرا مزاج بھی پوچھا نہ پھر کبھی
نازش گزر چکا تھا حدِ اعتدال سے
جانے کہاں گیا اُسے دیکھا نہ پھر کبھی