تایکی سی چھائی ہے میری ذات پر
روشنی کا متلاشی ہوں پر میسر نہیں
چوٹ کھاتا ہوں ہر قدم پر زخموں سے چُور ہوں
بہہ رہا ہے خونِ جگر پاس مرہم نہیں
کوئی تو ہو جو احساس کرے میرا
اکیلے پن سے اکتا چکا کسی کا ساتھ نہیں
زندگی کی تلخی کا اب معلوم ہوا مجھے
گرا پڑا ہوں کوئی اٹھانے والا نہیں
کس قدر تکلیف دہ ہے یہ سفر کب ختم ہو
سانس اگرچہ لڑکھڑا رہی پر رکتی نہیں
سمیٹ لوں جزبات کو اتنا آسان تو نہیں
بہار کا موسم ہے میرا دل مگر کھلا نہیں
بہت تکلیف میں ہوں کہاں ہے میرے ہمنوا
کوئی تو مسیحا ملے حالت اب سنبھلتی نہیں
تھک چکا ہوں بیگانگی کی سی کیفیت سے
سب چین کی نیند سویئں مجھے وہ بھی آتی نہیں